This article was published on Dawn News in Jan 2015

جعلی نوٹوں کی کرنسی کی گردش کے دوران موجودگی ایک اکائی کا معمولی جزو ہوسکتا ہے تاہم اس وقت کیا ہو جب ایک نوٹ آپ کے پاس ہو؟ کس طرح آپ ایک جعلی نوٹ کو آگے بڑھانے کے امکانات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسے موضوعات بہت زیادہ زیربحث نہیں آتے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان جعلی کرنسی کو پکڑنے اور روک تھام کے لیے بہترین اقدامات کیے ہیں اور تمام زیرگردش نوٹوں کے ڈیزائن گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران تبدیل کرکے ان میں ایسے سیکیورٹی اقدامات کیے گئے جو ان کی نقل بنانا مشکل بنادیتے ہیں۔

جعلی نوٹ پکڑنے کے لیے بینک نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ لوگ اس بات کو جانیں کہ کس طرح ایک مشتبہ نوٹ کو پکڑا جاسکتا ہے۔

تمام بینکوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ نوٹوں میں موجود سیکیورٹی فیچرز کو اپنے برانچز میں نمایاں مقامات پر آوایزاں کریں جبکہ مرکزی بینک نے اپنی ویب سائٹ http://www.sbp.org.pk/BankNotes/banknotes.htmپر بھی انہیں پوسٹ کررکھا ہے۔

مگر ان سب اقدامات کے باوجود اگر لوگ اپنے دوستوں اور خاندان کے حلقے میں اس حوالے سے پوچھیں تو انہیں بہت جلد احساس ہو جائے گا کہ بیشتر افراد جانتے ہی نہیں کہ ایک جعلی نوٹ کیا ہوتا ہے ، پھر یہاں ایسے بھی افراد ہیں جو آپ کو بتائیں گے کہ ایک نوٹ کو سفید کاغذ پر رگڑا جائے اور وہ اس پر رنگ چھوڑنے یا نہ چھوڑنے سے جعلی نوٹ کا پتا چلتا ہے، دیگر افراد آپ کو قائداعظم کی شیروانی رگڑنے کا مشورہ دیں گے اوروہ سخت ہو تو اسے مستند مان لیں گے۔

ان سب کے علاوہ کچھ افراد آپ کو کہیں گے کہ اپنی انگلی کو بڑی مالیت کے نوٹوں کے کونوں پر رگڑے اور اگر وہ سخت ہے تو وہ اصلی نوٹ ہے۔

ہوسکتا ہے کہ ان مشوروں کا بیشتر حصہ درست ہو مگر یہ سمجھنا کہ نوٹ درحقیقت کہاں پرنٹ ہوا اور اس کے سیکیورٹی فیچرز کہاں ہیں وغیرہ آپ کو نوٹ کو فوری جانچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

چھوٹے کے مقابلے میں بڑے نوٹ میں جعلی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لیے سو، پانچ سو، ایک ہزار اور پانچ ہزار کے ہی زیادہ جعلی نوٹ نظر آتے ہیں یہاں آپ ایسے چند سادہ نکات بتائے جارہے ہیں جس کی مدد سے آپ سو، پانچ سو، ایک ہزار اور پانچ ہزار کے جعلی نوٹوں کی شناخت کرسکیں گے۔

نوٹ کا کاغذ

پاکستان میں کرنسی نوٹ خصوصی کاغذ پر تیار کیے جاتے ہیں جن میں پروڈکشن کے وقت سیکیورٹی فیچرز شامل کیے جاتے ہیں جبکہ سیکیورٹی دھاگہ اس کاغذ میں اس طریقے سے شامل کیا جاتا ہے۔

ایک۔ اسے کسی صورت باہر نہیں نکالا جاسکتا۔

دو۔ یہ نوٹ کے سامنے والے حصے کے بائیں جانب ہوتا ہے۔

تین ۔ کسی سطح پر رکھ کر اسے دیکھا جائے تو دھاگہ چھوٹے چھوٹے وقفے کے ساتھ نظر آئے گا۔

چار ۔ جب اسے روشنی میں دیکھا جائے تو پورا دھاگہ نظر آتا ہے۔

پانچ ۔ نوٹ کی مالیت دھاگے پر پرنٹ ہوتی ہے۔

اگر آپ کو اس آزمائش کے دوران یہ فیچرز نظر نہ آئیں تو اسے لینے سے گریز کریں۔ جعل ساز کسی جعلی نوٹ میں یا تو گہری پٹی پرنٹ کردیتے ہیں یا پوری پٹی کاغذ کی دو شیٹوں کے درمیان رکھ دیتے ہیں۔

نوٹ کو جانچنے کا ایک طریقہ قائداعظم کی واٹر مارک تصویر ہے جو سامنے کے حصے میں بائیں جانب ہوتی ہے ۔

ایک ۔ جب کسی سطح پر رکھ کر دیکھا جائے تو ہلکا سفید خاکہ نظر آنے لگتا ہے۔

دو ۔ جب نوٹ کو روشنی میں دیکھا جائے تو قائداعظم کی تصویر کرنسی مالیت کے ساتھ نظر آتی ہے۔

تین ۔ واٹر مارک پرنٹ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے کاغذ کی موٹائی میں تبدیلی لاتے ہوئے تخلیق کیا جاتا ہے۔

اگر آپ اپنی انگلی نئے نوٹ کے کاغذ کی سطح پر رگڑیں تو آپ کو سطح میں تبدیلی کا احساس ہوگا۔ اگر آپ کوئی بھی چیز ان باتوں سے ہٹ کر محسوس کریں تو نوٹ کو لینے سے انکار کردیں، جعل ساز واٹر مارک کو تخلیق کرنے کی بجائے پرنٹ کرتے ہیں۔

کرنسی نوٹ کا کاغذ کبھی بھی اس طرح الگ نہیں ہوسکتا جیسے ٹشو پیر ہوجاتے ہیں، اگر آپ نوٹ کے کناروں کو ایک دوسرے سے الگ دیکھیں تو اسے لینے سے انکار کردیں۔ کیونکہ حقیقی نوٹ استعمال کے دوران کبھی بھی دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا اور جعل ساز جعلی نوٹ بناتے ہوئے آگے اور پیچھے کے حصوں کو پرنٹ کرکے گلو سے جوڑتے ہیں۔

حقیقی کرنسی نوٹ کا رنگ الٹراوائلٹ روشنی میں کبھی نہیں بدلتا۔

یہ جعلی کرنسی کو جانچنے کا بنیادی اور طوری طریقہ ہے کہ سیاہ روشنی یا الٹرا وائلٹ روشنی نوٹوں کے بنڈل پر ڈالی جائے اور اگر آپ کسی نوٹ کو چمکتے ہوئے دیکھیں تو اسے مسترد کردیں۔

اس سلسلے میں ایک اصلی نوٹ کا ایک سادہ سفید کاغذ کی شیٹ پر رکھیں اور لائٹس بند کرکے اس پر الٹراوائلٹ یا سیاہ روشنی ڈالیں جس سے اچانک ہی سفید کاغذ ہلکی نیلگوں روشنی میں جگمگانے لگے گا جبکہ کرنسی نوٹ کا رنگ تبدیل نہیں ہوگا۔

پرنٹنگ

کاغذ کی طرح کرنسی نوٹوں کی پرنٹنگ کا طریقہ کار بھی خاص ہوتا ہے اور اس میں متعدد سیکیورٹی فیچرز شامل کیے جاتے ہیں جس سے آپ کے لیے جعلی نوٹوں کی شناخت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

پرنٹنگ کے لیے خصوصی سیاہی کو استعمال کیا جاتا ہے جو بھیگنے سمیت کسی بھی صورت خراب نہیں ہوتی۔

جعلی نوٹوں کی سیاہی عام طور پر گیلی ہونے کے بعد پھیل جاتی ہے اگر آپ کو کسی نوٹ پر شبہ ہو تو اس کا وہ حصہ ڈبو دیں جہاں زیادہ سیاہی استعمال ہوتی ہے اور پھر انگلی سے رگڑیں، اگر وہ خراب نہ ہو تو نوٹ اصلی ہے دوسری صورت میں جعلی۔

اکثر لوگ ایک بات بتاتے ہیں کہ نوٹ کی سطح ایک سادہ کاغذ پر رگڑے اور پھر دیکھیں کہ سیاہی چھوڑتا ہے یا نہیں، کچھ کہتے ہیں کہ نوٹ سیاہی چھوڑتا ہے اور کچھ کے خیال میں نہیں، مگری ہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہے تو آپ کے خیال میں سادہ کاغذ پر کتنی سیاہی نوٹ کو چھوڑنی چاہئے؟ درحقیقت یہ جعلی یا اصلی نوٹ کو جانچنے کا درست طریقہ نہیں۔

تیکنیکی طور پر سیاہی کو کاغذ پر قائداعظم کی ابھری ہوئی شیروانی اور نوٹ کے کناروں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

آپ کو اس حوالے سے یہ جاننے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ چاہے جتنا بھی پرانا ہو مگر قائداعظم کی شیروانی ہمیشہ ہاتھ پھیرنے پر ابھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

نوٹ کے کنارے پر موجود لکیریں صرف سامنے کی جانب سے ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔

آسانی سے جانچنے والے نکات : اپنے انگوٹھے کا ناخن سامنے کے حصے کے کناروے پر پھیریں جبکہ شہادت کی انگلی باقی حصے پر رگڑے، اگر آپ کو ابھرا ہوا یا کھوکھلا حصہ محسوس ہو تو وہاں روک جائیں اور روشنی میں دیکھنے پر آپ کو چھیدنے کے نشانات نظر آجائیں گے۔

جعل ساز سامنے کے جانب ناہمواری کا اثر پیدا کرتے ہوئے نوٹوں پر سوئی سے چھیدنے کے نشانات بناتے ہیں

اینٹی فوٹو کاپی اور اینٹی اسکیننگ طریقہ کار کو اپنانا۔

نوٹ کے سامنے کی بائیں جانب لکیریں سی ہوتی ہیں مگر یہ لائنز فوٹو کاپی یا اسکین اور پھر پرنٹ کیے جانے کی صورت میں جادوئی انداز میں غائب ہوجاتی ہیں، لہذا اگر یہ لکیریں نوٹ پر نہ ہو تو جان لیں کہ وہ جعلی ہے۔

پانچ سو، ایک ہزار اور پانچ ہزار والے نوٹوں پر جھنڈے

یہ جھنڈے مختلف پہلوﺅں سے دیکھنے پر اپنی رنگت بدل لیتے ہیں۔

آسان نکات : اگر جھنڈا اپنا رنگ نہ بدلے تو وہ نوٹ جعلی ہے۔

ایک نوٹ پر قائداعظم کی تصویر کے قریب مالیت کا ہندسہ چھپا ہوتا ہے۔

اس چھپے ہونے ہندسے کی تصویر کو دیکھنے کے لیے نوٹ کو روشنی کے سامنے لاکر دیکھیں وہ ہندسہ جادوئی انداز میں نمودار ہوجائے گا۔

نوٹوں کا ہندسہ اردو رسم الخط میں نوٹ کے بائیں جانب اوپر پرنٹ ہوتا ہے۔

جب آپ کسی سطح پر نوٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ ہندسہ نامکمل اعداد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

جب نوٹ کو اٹھا کر دیکھا جائے اور اس پر سے روشنی آر پار ہو تو یہ ہندسہ مکمل نظر آتا ہے۔

جعل ساز یہ فیچر گہری اور ہلکے رنگوں میں پرنٹنگ کے ذریعے شامل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں اٹھا کر دیکھنے کی صورت میں یہ جعلی نوٹ اصل کی طرح تبدیل نہیں ہوپاتا۔

کرنسی نوٹوں میں مزید متعدد فیچرز بھی اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں جن کو چیک کرنے پر آپ نوٹوں کی شناخت کرسکتے ہیں۔

قانون کے مطابق اگر آپ بینک کو ایک جعلی نوٹ پکڑ کر دیں تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر اسے پر منسوخ کی مہر لگا دیں اور اس نوٹ کو اپنے پاس رکھے۔ بینکوں کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ حکام کو اس صورت میں اطلاع کرے جب اسے کسی فرد پر دانستہ جعلی کرنسی کو پھیلانے کا شبہ ہو۔ جس کے نتیجے میں ملزمان کو جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی جاسکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *